Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر3

وہ یونی سے واپس آئی تو پورچ میں گاڑی کھڑی تھی جسے وہ پہچان چکی تھی وہ خوشی سے اندر کی طرف بڑھی۔۔۔ لاو نج میں ہی سب موجود تھے ایک صوفے پہ اس کے ماموں اور مامی بیٹھے تھے جبکہ دوسرے ڈبل سیٹر صوفے پہ اس کے ماموں کا بیٹا اشعر اور درید بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے جو کہ زیادہ تر بزنس کے بارے میں ہی تھیں۔۔۔۔ جب کہ عانیہ جو کہ نا صرف اس کی کزن تھی بلکہ ان دونوں کی آپس میں بہت اچھی دوستی بھی تھی وہ اس وقت کچن میں نادیہ بیگم کی ہیلپ کے ساتھ ساتھ دنیا جہان کی باتیں بھی کر رہی تھی۔۔۔۔۔ اسلامُ علیکُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے زور سے سب کو مشترکہ سلام کیا ۔۔۔ جس کا سب نے اکٹھے ہی جواب بھی دیا ۔۔۔۔ آپ لوگ کب آئے اور آنے سے پہلے بتایا بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔وہ سب سے ملتے ہوئے اپنی ممانی کے پاس بیٹھتے ہوئے خفگی سے بولی۔ بھئی ہم نے سوچا کہ اپنی بیٹی کو سرپرائز دیا جائے۔۔۔۔اُس کے ماموں بولے تھے۔۔۔ ساوی کی شکایت پہ سب مسکرائے تھے مگر اشعر کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ تھی اور وہ غور سے ساوی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اُس کی یہ حرکت اور کسی نے تو نہیں مگر درید نے شدت سے نوٹ کی تھی اور اسے کتنا ناگوار گزرا تھا یہ خدا کے علاوہ اس کا دل ہی جانتا تھا۔۔۔۔۔۔۔اس نے اشعر کو باتوں میں لگا کے اُس کا دھیان ساوی سے ہٹایا تھا کوئی اس کی ساوی کو غور سے دیکھے اُسے کہاں گوارا تھا۔۔۔۔اور اشعر نے بھی اس پر سے نظریں ہٹا لی تھیں جس پر اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔۔۔۔۔ ساوی جاؤ عانیہ سے مل لو وہ کچن میں ہے۔۔۔۔۔۔ اس نے ساوی کو منظر سے ہٹانا چاہا جس میں وہ کامیاب بھی ہوا۔ جی میں اس سے مل کے آتی ہوں۔۔۔۔۔ وہ وہاں سے اُٹھتے ہوئے بولی۔ وہ کچن میں داخل ہوئی تو وہ نادیہ بیگم اور عانیہ کسی بات پہ ہنس رہی تھیں۔۔۔ اس نے جا کہ کے پیچھے سے اُسے ہگ کیا۔۔ آگئی تم ۔۔۔۔۔وہ اس کی طرف مڑتے ہوئے بولی ہاں جی آگئی میں اب چلو یہاں سے اندر چل کے باتیں کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ اسے باہر لے جاتے بولی۔ ساوی بیٹا پہلے فریش ہو جاو جا کہ پھر ڈنر کے بعد جتنی چاہے باتیں کرنا۔۔۔۔۔۔نادیہ بیگم اس کا رُخ اس کے کمرے کی طرف موڑتے ہوئے بولیں اوکے ماما جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی جب کہ عنایہ نادیہ بیگم کے ساتھ مل کر ڈنر کے لیے ٹیبل سیٹ کرنے لگی۔۔


وہ جب فریش ہو کہ باہر آئی تب تک سب ہی ڈائنینگ ٹیبل پر بیٹھ چکے تھے۔۔۔۔۔ وہ اپنی سیٹ پہ بیٹھ گئی جو کہ درید کہ دائیں طرف تھی جب کہ ساوی کے بلکل سامنے اشعر بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ ہی عانیہ بیٹھی تھی۔۔۔۔ بھائی صاحب شایان کب تک آ رہا ہے واپس ؟؟۔۔۔۔ ساوی کے ماموں نے شایان کے بارے میں پوچھا جو ایم بی اے کرنے کے لیے لندن گیا تھا۔ وقار میری بات ہوئی تھی اس سے یہ آخری سمسٹر ہے اس کا جلد ہی وہ یہاں ہو گا ہمرے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ . وہ انہیں بتا رہے تھے۔۔۔ شایان کے ذکر پہ عانیہ کا چہرہ سُرخ پڑا تھا اور اس کے چہرے کے بدلتے رنگ ساوی سے چھپے نہیں رہے تھے۔۔ اب وہ دل ہی دل میں اسے تنگ کرنے کی پلاننگ کرنے لگی تھی اس بات سے انجان کہ خود وہ اشعر کی گہری نگاہوں کے حصار میں تھی۔۔۔ وہ خود تو انجان تھی مگر اُس کے پاس بیٹھا وہ شخص جس کی اس چڑیا میں جان تھی وہ انجان نہیں تھا اور اِس وقت وہ بہت ضبط کئیے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔ ورنہ دل تو اس کا کر رہا تھا کہ ایک ہاتھ جڑ ہی دے اس کے منہ پر ۔۔۔۔ اُسے کوئی زاتی پرخاش نہیں تھی اشعر سے بسس وہ ساوی کے معاملے میں ایسا ہی ہو جاتا تھا۔۔۔۔کسی کی غلط نگاہ اس کی طرف برداشت بھی نہیں کر سکتا تھا وہ۔۔۔۔۔ وہ اشعر کو غصے سے گھور رہا تھا شاید اُسے بھی احساس ہو گیا تھااسی لیے وہ ساوی پر سے نظریں ہٹا گیا ۔۔۔۔۔


وہ گھر میں داخل ہوا تو اسی سنّاٹے نے اُس کا استقبال کیا جس نے اس گھر کو پچھلے تین سالوں سے گھیرا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ بوا ۔۔۔۔۔۔اُس نے بوا کو آواز لگائی ۔۔ جی بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔بوا اس کے سامنے ہی کھڑی ہو گئیں ڈنر ریڈی ہے ؟؟ اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔ جی بیٹا تیار ہے آپ فریش ہو جائیں مں کھانا لگاتی ہوں ۔۔۔۔وہ اسے کہہ کر کچن کی طرف مُڑ گئیں وہ کمرے کی طرف بڑھا اس کے کمرے میں بھی ویسا ہی سناّٹااور وحشت تھی جیسی اس کے دل میں تھی۔۔۔ یہ لیں آپ کی چائے ۔۔۔۔۔۔کوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی ۔ ارے آج ہم آئس کریم کھانے جائیں گے۔۔۔۔۔۔وہ آواز پھر آئی تھی۔۔ نہیں بلکل نہیں آپ میری پسند کا ڈریس پہنیں گے۔۔۔۔۔وہ آواز ہر جگہ تھی جو اسے سُنائی دے رہی تھی۔۔۔۔وہ دیوانوں کی طرح اس آواز والی کو پورے کمرے میں ڈھونڈ رہا تھا جو کہیں نہیں تھی۔۔۔ بیٹا کھانا لگ گیا ہے آجاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس سے پہلے کہ وہ پھر اُسی وحشت میں کھوتا بوا کی آواز دروازے کے اُس پار سُنائی دی تھی۔۔جو اسے بُلا کے واپس جا چکی تھیں۔۔۔۔ اُن کو کھانا کھلایا ؟؟ ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔ جی کھلا دیا تھا کچھ دیر پہلے۔۔۔۔ وہ کھانا سرو کرتے ہوئے بولیں۔۔ اس نے بس سر ہلا دیا ۔۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد وہ اُن کے کمرے کی طرف بڑھ گیا وہ حسبِ معمول بستر پہ لیٹی ہوئیں تھیں انہیں دیکھ کے اُس کے دل میں ندامت اور پچھتاوا اور بڑھ گیا ۔۔۔۔ وہ جاگ رہیں تھیں اُسے دیکھ کے منہ پھیر لیا۔۔۔۔ اُس کا دل کٹ کے رہہ گیا کہاں وہ وقت تھا جب وہ اُس سے سب زیادہ محبت کرتیں تھی اور آج وہ اُسی سے منہ پھیر رہی تھیں۔۔۔۔ معاف کر دیں مجھے پلیز تھک گیا ہوں بہت اکیلا ہو گیا ہوں کوئی نہیں ہے آپ کے سوا میرے پاس سب اکیلا چھوڑ گئے آپ تو منہ مت موڑیں۔۔۔۔۔وہ درد بھرے لہجے میں بولا میں معاف کر دوں گی تمہیں تب جب تم اُس کو ڈھونڈ کر میرے سامنے لاو گے۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہنوز چہرہ دوسری طرف کئیے بولیں ۔۔۔ بہت جلد لے آوں گا اُسے آپ دعا کریں کہ وہ جلدی مل جائے ۔۔۔۔۔۔ وہ اُن کے ہاتھ چومتا ہوا بولا اور باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔ وہ اُسے بھیگی آنکھوں سے دیکھتی رہ گئیں اور پھر آنکھیں موند گئیں جن کے پار وہ اپنی مسکراہٹ بکھیرے خوش نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔


وہ ڈنر کےبعد عانیہ کو لے کر کمرے میں آگئی۔۔۔اس کا کمرہ بے بی پنک اور پرپل کلر کے کمبینیشن سے پینٹ کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔کھڑکیوں کے پردے اور بیڈ شیٹ تک کا کلر بھی بےبی پنک اور پرپل تھا بیڈ کے دائیں طرف ڈریسنگ جبکہ بائیں طرف فاصلے پر کبرڈ تھا۔ ایک سائڈ پہ اٹیچ باتھروم تھا ۔۔فلور پہ پرپل کلر کا ہی نرم و ملائم کارپٹ بچھا ہوا تھا۔۔۔پورا کمرہ نفاست کی مثال تھا۔۔۔۔۔۔ وہ عانیہ کو لیئے بیڈ پر بیٹھ گئی تا کہ آرام سے باتیں کر سکے۔۔۔ پتا ہے میں شایان بھائی کو بہت مس کرتی ہوں ۔۔۔۔وہ شرارت سے بولی۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔۔عانیہ ایک بار پھر شایان کے نام پر سُرخ ہوئی ۔۔۔ ہاں نا کیوں تم نہیں کرتی؟؟؟ وہ معنی خیزی سے بولی۔۔ مم ممیں کیوں کرو گی انہیں مس؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بُری طرح جھینپی۔ ارے تمہارے کزن ہیں تو تم کیوں نہیں یاد کرتی؟؟؟؟ وہ تھوڑا خفگی سے بولی۔۔ ہہہ ہاں کرتی ہوں یاد کزن ہیں ناں۔۔۔۔ وہ کنفیوز ہوئی ۔ ہاہاہاہا یار تم کتنی اچھی لگتی ہو شرماتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ساوی شرارت سے بولی۔ مم مطلب ۔۔۔۔۔۔۔وہ اٹکی۔ مطلب یہ کہ مجھے پتہ ہے کہ تم شایان بھائی کو پسند کرتی ہو مگر پتہ نہیں وہ تمہیں پسند کرتے ہیں یا نہیں یا شاید وہ کسی گوری کو پسند کرتے ہوں لندن میں ۔۔۔۔۔ وہ شرارت سےسرگوشی میں بولی۔ نہی نہیں وہ ایسے نہیں ہیں وہ کسی گوری کو پسند نہیں کر سکتےوہ صرف مجھے ہی۔۔۔۔۔۔ روانگی سے بولتے ہوئے وہ ایک دم چُپ ہو گئی اور ساوی کی طرف دیکھا جو اسی کی طرف دیکھتی مسکرا رہی تھی۔۔۔ بولو بولو چُپ کیوں ہو گئی بولو نا کہ وہ صرف تمہیں پسند کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔ ساوی۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا گئی۔۔۔ ہاہاہا ہمیشہ خوش رہو میں ماما سے ضرور بات کروں گی کہ وہ صرف تمہیں ہی میری بھابھی بنائیں ۔۔۔۔۔وہ اسے گلے لگاتے ہوئے بولی۔۔۔۔ انشاللّٰہ میں ہی بنوں گی تمہاری بھابھی ۔۔۔۔ عانیہ اُس کے گلے لگتی دل میں بولی اس بات سے انجان کہ کبھی کبھی وہ نہیں ہوتا جو ہم نے سوچا ہوتا ہے بلکہ وہ ہوتا ہے جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے۔۔اب اُس کی قسمت میں شایان کا ساتھ لکھا تھا یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا جس کے آنے میں ابھی وقت تھا

   0
0 Comments